Sunday 27 December 2020

شہروں کے سارے جنگل گنجان ہو گئے ہیں

 شہروں کے سارے جنگل گنجان ہو گئے ہیں 

پھر لوگ میرے اندر سنسان ہو گئے ہیں 

ان دوریوں کی مشکل آنکھوں میں بجھ گئی ہے 

ہم آنسوؤں میں بہہ کر آسان ہو گئے ہیں 

ایسی خموشیاں ہیں سب راستے جدا ہیں 

الفاظ میں جزیرے ویران ہو گئے ہیں 

تم برف میں نہ جانے کب سے جمے ہوئے ہو 

ہم جانے کس ہوا کا طوفان ہو گئے ہیں 

جسموں کی سردیوں میں پھر جل گئے ہیں رشتے 

سب ایک دوسرے کے مہمان ہو گئے ہیں 


تنویر انجم 

No comments:

Post a Comment