شہروں کے سارے جنگل گنجان ہو گئے ہیں
پھر لوگ میرے اندر سنسان ہو گئے ہیں
ان دوریوں کی مشکل آنکھوں میں بجھ گئی ہے
ہم آنسوؤں میں بہہ کر آسان ہو گئے ہیں
ایسی خموشیاں ہیں سب راستے جدا ہیں
الفاظ میں جزیرے ویران ہو گئے ہیں
تم برف میں نہ جانے کب سے جمے ہوئے ہو
ہم جانے کس ہوا کا طوفان ہو گئے ہیں
جسموں کی سردیوں میں پھر جل گئے ہیں رشتے
سب ایک دوسرے کے مہمان ہو گئے ہیں
تنویر انجم
No comments:
Post a Comment