Saturday 26 December 2020

ہر ایک پل مجھے دکھ درد بے شمار ملے

 ہر ایک پل مجھے دکھ درد بے شمار ملے

خدا کبھی تو میرے دل کو بھی قرار ملے

زمانہ دشمنِ جاں ہو گیا یہ غم ہے مگر

میرا نصیب کے خنجر بدست یار ملے

کیا ہو گی اس سے بھی بڑھ کر کسی کی محرومی

جسے نصیب میں تا مرگ انتظار ملے

اے عالمین کے رازق! بتا کہاں جاؤں

میرے وطن میں مجھے جب نہ روزگار ملے

رہے وہ زنده یا مر جائے فرق کیا ہے جسے

گھٹن زمانے میں اور قبر میں فشار ملے

میں مسکراتا مگر دی نہ اشک نے مہلت

خوشی جب ایک ملی ساتھ غم ہزار ملے

جو جھوٹ بولے حکومت سے داد لے جائے

جو بولے سچ اسے تحفے میں اوجِ دار ملے

فلک پہ لکھوں ترا نام میرے نام کے ساتھ

اگر کبھی مجھے تاروں پر اختیار ملے

میں جن سے دور ہی رہنا پسند کرتا تھا

وہ زندگی کی مسافت میں بار بار ملے

خوشی سے ابر ہر اک ربط منقطع کردو

اگر کہی کوئی دنیا میں سوگوار ملے


انیس ابر

No comments:

Post a Comment