جو دل پہ نقش ہوں منظر سہانے لگتے ہیں
کسی کے بھولنے میں بھی زمانے لگتے ہیں
بہت سے اور بھی کھلتے ہیں درد اس لمحے
جب ایک غم کو ہنسی میں چھپانے لگتے ہیں
قلم کو چوم لیا ہم نے لکھتے وقت کبھی
کبھی خود اپنا لکھا بھی مٹانے لگتے ہیں
عجیب درد ہے جس دم کوئی دلاسا دے
مجھے تو پچھلے بھی غم یاد آنے لگتے ہیں
ہم ان سے اپنی کوئی بات کرنا چاہتے ہیں
وہ داستان جہاں کی سنانے لگتے ہیں
حدیثِ زیست بھی اپنی عجب ہے پڑھ کے جسے
کبھی تو رونے کبھی مسکرانے لگتے ہیں
رقم کیا جنہیں اوراقِ دل پہ ہم نے کبھی
کبھی وہ شام کے منظر ڈرانے لگتے ہیں
کبھی تو ملتے ہیں دو اجنبی بھی ایسے سحر
کہ ان کے بیچ تعلق پرانے لگتے ہیں
یاسمین سحر
No comments:
Post a Comment