Saturday 26 December 2020

جو دل پہ نقش ہوں منظر سہانے لگتے ہیں

 جو دل پہ نقش ہوں منظر سہانے لگتے ہیں

کسی کے بھولنے میں بھی زمانے لگتے ہیں

بہت سے اور بھی کھلتے ہیں درد اس لمحے

جب ایک غم کو ہنسی میں چھپانے لگتے ہیں

قلم کو چوم لیا ہم نے لکھتے وقت کبھی

کبھی خود اپنا لکھا بھی مٹانے لگتے ہیں

عجیب درد ہے جس دم کوئی دلاسا دے

مجھے تو پچھلے بھی غم یاد آنے لگتے ہیں

ہم ان سے اپنی کوئی بات کرنا چاہتے ہیں

وہ داستان جہاں کی سنانے لگتے ہیں

حدیثِ زیست بھی اپنی عجب ہے پڑھ کے جسے

کبھی تو رونے کبھی مسکرانے لگتے ہیں

رقم کیا جنہیں اوراقِ دل پہ ہم نے کبھی

کبھی وہ شام کے منظر ڈرانے لگتے ہیں

کبھی تو ملتے ہیں دو اجنبی بھی ایسے سحر

کہ ان کے بیچ تعلق پرانے لگتے ہیں


یاسمین سحر

No comments:

Post a Comment