دسمبر جاتے جاتے کہہ گیا ہے
بہت کچھ نا مکمل رہ گیا ہے
بہت سے زخم سینے میں لگے ہیں
بہت سا خونِ نا حق بہہ گیا ہے
وہی قربت کے غم دوری کے صدمے
سلیقے سے یہ دل بھی سہہ گیا ہے
نظر انداز تھا تو ٹھیک تھا دل
نظر کی ٹھوکروں سے ڈھہ گیا ہے
یہ عمرِِ خاک پیما کے ہیں آنسو
کہ اور اک سال ان میں بہہ گیا ہے
جاوید احمد
No comments:
Post a Comment