Thursday 31 December 2020

دسمبر جاتے جاتے کہہ گیا ہے

 دسمبر جاتے جاتے کہہ گیا ہے

بہت کچھ نا مکمل رہ گیا ہے

بہت سے زخم سینے میں لگے ہیں

بہت سا خونِ نا حق بہہ گیا ہے

وہی قربت کے غم دوری کے صدمے

سلیقے سے یہ دل بھی سہہ گیا ہے

نظر انداز تھا تو ٹھیک تھا دل

نظر کی ٹھوکروں سے ڈھہ گیا ہے

یہ عمرِِ خاک پیما کے ہیں آنسو

کہ اور اک سال ان میں بہہ گیا ہے


جاوید احمد

No comments:

Post a Comment