نہ پھول ہوں نہ ستارہ ہوں اور نہ شعلہ ہوں
گہر ہوں درد کا اور اشک بن کے رہتا ہوں
وہ ایک بچہ ہے حسرت سے دیکھتا ہے مجھے
میں اس کے ہاتھ میں ٹوٹا ہوا کھلونا ہوں
یہ سوچ کر کہ بچھڑنا ہے ایک دن خود سے
میں اپنے آپ سے پہروں لپٹ کے رویا ہوں
عجیب شخص مری زندگی میں آیا تھا
نہ یاد رکھوں اسے اور نہ بھول سکتا ہوں
لرز رہی ہیں مری انگلیاں قلم تھامے
نہ جانے آج میں کیا بات لکھنے والا ہوں
مجھے پکار کہ میں ڈوب ہی نہ جاؤں کہیں
میں بے قرار سمندر میں اک جزیرہ ہوں
گزر چکے ہیں بہت کارواں ادھر سے سروش
مگر میں اپنے ہی گرد سفر سے لپٹا ہوں
رفعت سروش
No comments:
Post a Comment