خوبیوں خامیوں اچھی بری عادات سمیت
بول منظور ہوں میں سارے تضادات سمیت
جھانک سکتے ہو اگر نیند کی وادی سے پرے
دیکھ سکتے ہو مجھے خواب و خیالات سمیت
بوڑھے برگد کے جھکے شانے بتاتے ہیں مجھے
اس نے ڈھویا ہے کہانی کو روایات سمیت
پیڑ کا سایہ نہیں پھل بھی ضرورت ہے مِری
دل بھی درکار ہے تیرا مجھے دن رات سمیت
جتنی دنیاؤں کو تم ڈھونڈ رہے ہو باہر
میرے کمرے میں ہیں بند ارض و سماوات سمیت
شہر والوں کو پرکھنا کوئی مشکل تو نہیں
باتوں باتوں ہی میں کھل جاتے ہیں اوقات سمیت
اس کے چھوتے ہی بدن ایسے چمک اٹھتا ہے
جیسے جل اٹھے کوئی شہر مضافات سمیت
شمامہ افق
No comments:
Post a Comment