Wednesday, 27 January 2021

خوبیوں خامیوں اچھی بری عادات سمیت

 خوبیوں خامیوں اچھی بری عادات سمیت 

بول منظور ہوں میں سارے تضادات سمیت 

جھانک سکتے ہو اگر نیند کی وادی سے پرے 

دیکھ سکتے ہو مجھے خواب و خیالات سمیت 

بوڑھے برگد کے جھکے شانے بتاتے ہیں مجھے 

اس نے ڈھویا ہے کہانی کو روایات سمیت 

پیڑ کا سایہ نہیں پھل بھی ضرورت ہے مِری 

دل بھی درکار ہے تیرا مجھے دن رات سمیت 

جتنی دنیاؤں کو تم ڈھونڈ رہے ہو باہر 

میرے کمرے میں ہیں بند ارض و سماوات سمیت 

شہر والوں کو پرکھنا کوئی مشکل تو نہیں 

باتوں باتوں ہی میں کھل جاتے ہیں اوقات سمیت 

اس کے چھوتے ہی بدن ایسے چمک اٹھتا ہے 

جیسے جل اٹھے کوئی شہر مضافات سمیت 


شمامہ افق

No comments:

Post a Comment