بغیر اپنے کسی مطلب کے الفت کون کرتا ہے
یہ دنیا ہے یہاں بے لوث چاہت کون کرتا ہے
گوارا لطف فرمانی کی زحمت کون کرتا ہے
محبت کرنے والے سے محبت کون کرتا ہے
تمہیں زعم محبت ہے مجھے بھی ہے مگر اے جاں
تم اپنی دل سے ہی پوچھو محبت کون کرتا ہے
جوانی کے نکھرتے حسن کی انداز سے پوچھو
مِرے خوابیدہ جذبوں سے شرارت کون کرتا ہے
غلط الزام ہے مجھ پر مِرے برباد ہونے کا
خود اپنے واسطے پیدا مصیبت کون کرتا ہے
ٹٹولو اپنے دل کو اور اپنے دل سے ہی پوچھو
کہ یہ میرے لیے سامان وحشت کون کرتا ہے
افضل پشاوری
افضل پیشاوری
No comments:
Post a Comment