دعا کے میلے سے حرفِ ندا خرید کے میں
بنا رہا ہوں تِرے کچھ لباس عید کے میں
مدام کوٹتا رہتا ہوں درد کا لوہا
حروف پڑھتے ہوئے سورۂ حدید کے میں
قدم اٹھاتا ہوں اک اس کی آنکھ کی جانب
خیال مُٹھی میں بھر لاتا ہوں بعید کے میں
کلائی تھام کے بیٹھا ہوں شب کی آخرِ شب
کہ سانس دیکھتا ہوں آخری ورید کے میں
سوالِ بیعتِ حاکم پہ چیخ اٹھا ہے لہو
کبھی جھکا نہیں آگے کسی یزید کے میں
اسد زیدی
No comments:
Post a Comment