کاسہ ہے مرے ہاتھ میں شمشیر نہیں ہے
لیکن یہ مِری آخری تصویر نہیں ہے
اس اسم کو پڑھنے سے ملی ہے یہ رعایت
زنداں میں مِرے پاؤں ہیں، زنجیر نہیں ہے
ہم دونوں، کنارے پہ کھڑے ڈوب رہے ہیں
اے کاتبِ تقدیر! کیا تدبیر نہیں ہے؟
اس آنکھ سے پہلے تو کوئی خواب نہیں تھا
اس خواب سے پہلے کوئی تعبیر نہیں ہے
راشد کیوں کسی شخص کو آواز لگائیں
ہم دشت نوردوں کا کوئی پِیر نہیں ہے
راشد علی
No comments:
Post a Comment