کسے بچاتا ہے، آج امتحان ہے اس کا
تمام ڈوبنے والوں کو مان ہے اس کا
زمین چھوڑ کے ٹھیلے لگا رہے ہیں کسان
کہ آمدن سے زیادہ لگان ہے اس کا
تمہیں تو دھوپ بھی اچھی لگے گی، بارش بھی
تمہارے سر پہ ابھی سائبان ہے اس کا
میں داستان سنا کر خموش ہو گیا تو
پتا چلا کہ کہیں اور دھیان ہے اس کا
جو اس طرف کو گیا لوٹ کر نہیں آیا
سو ہم کو کیا پتا، کیسا جہان ہے اس کا
وہ موج آئی مِرے پاؤں چھو کے لوٹ گئی
یہ دیکھ ریت پہ اب تک نشان ہے اس کا
نادر عریض
No comments:
Post a Comment