تجھ کو اب اور تماشا نہ بنانے دیں گے
تو اگر چھوڑ کے جائے گا تو جانے دیں گے
اب اگر لوٹ کے آیا بھی تو یہ یاد رہے
پھر نہ ساون نہ دسمبر نہ زمانے دیں گے
زندگی تجھ کو نیا روپ مبارک، لیکن
جان تجھ پر تو وہی یار پرانے دیں گے
موسم ہجر تجھے راس نہ آئے گا کبھی
ہم تجھے وصل کے سب خواب سہانے دیں گے
اپنی یادوں سے تِرے دل کو بسائیں گے سدا
ہاتھ تجھ کو نہ کہیں اور ملانے دیں گے
سادہ الفاظ میں الفت کا کریں گے اظہار
وہ محبت کے مقالے نہ فسانے دیں گے
جس میں اپنوں کی جدائی کے دِیے جلتے ہوں
ایسی دولت نہ کبھی تجھ کو کمانے دیں گے
تیری سانسوں میں سدا ہم تو رہیں گے زندہ
ہم بھَلا خود کو کبھی تجھ کو بھُلانے دیں گے
عجیب ساجد
No comments:
Post a Comment