Sunday, 24 January 2021

ضرورت سے زیادہ جی رہا ہے

 ضرورت سے زیادہ جی رہا ہے 

ادھُورا شخص پورا جی رہا ہے 

ہے بارش کی مسلسل مہربانی 

مِرے صحرا میں دریا جی رہا ہے 

در و دیوار سانسیں لے رہے ہیں 

تبھی کمرے کا پردہ جی رہا ہے 

بسا ہے تو مری آنکھوں میں جب سے 

یہاں رنگوں کا میلہ جی رہا ہے 

سبھی ہاتھوں میں اپنے پھول دے کر 

خوشی کے ساتھ گملہ جی رہا ہے 

نکل بھی آ وہاں تُو چاند بن کر 

جو تیرے بِن علاقہ جی رہا ہے 


شعیب زمان

No comments:

Post a Comment