Tuesday, 26 January 2021

آگ لگتی ہے کہاں شور کہاں اٹھتا ہے

 آگ لگتی ہے کہاں شور کہاں اٹھتا ہے

خواب جلتے ہیں تو آنکھوں سے دھواں اٹھتا ہے

ایک حسرت ہے جو ہونٹوں پہ دھری رہتی ہے

ایک نوحہ سا کبھی زیرِ زباں اٹھتا ہے

درد کہتے ہو کہ ہوتا ہے جو بائیں جانب

بائیں پسلی کے تغافل سے وہاں اٹھتا ہے

تِرے ہونے، نہیں ہونے کے تذبذب پہ نثار

ہم کہ رکھتے ہیں یقیں اور گماں اٹھتا ہے

خشک سالی کی ہتھیلی پہ ہری رہتی ہیں

جن زمینوں پہ محبت کا نشاں اٹھتا ہے

جس جگہ پر بھی سُلا دوں میں تھپک کے غم کو

یہ جو سینہ ہے ناں کم بخت یہاں اٹھتا ہے

جانے کیا رنج اٹھائے ہیں تِرے بعد خلیل

ہاتھ پہلو پہ سدا رکھ کے جواں اٹھتا ہے


خلیل حسین بلوچ

No comments:

Post a Comment