آگ لگتی ہے کہاں شور کہاں اٹھتا ہے
خواب جلتے ہیں تو آنکھوں سے دھواں اٹھتا ہے
ایک حسرت ہے جو ہونٹوں پہ دھری رہتی ہے
ایک نوحہ سا کبھی زیرِ زباں اٹھتا ہے
درد کہتے ہو کہ ہوتا ہے جو بائیں جانب
بائیں پسلی کے تغافل سے وہاں اٹھتا ہے
تِرے ہونے، نہیں ہونے کے تذبذب پہ نثار
ہم کہ رکھتے ہیں یقیں اور گماں اٹھتا ہے
خشک سالی کی ہتھیلی پہ ہری رہتی ہیں
جن زمینوں پہ محبت کا نشاں اٹھتا ہے
جس جگہ پر بھی سُلا دوں میں تھپک کے غم کو
یہ جو سینہ ہے ناں کم بخت یہاں اٹھتا ہے
جانے کیا رنج اٹھائے ہیں تِرے بعد خلیل
ہاتھ پہلو پہ سدا رکھ کے جواں اٹھتا ہے
خلیل حسین بلوچ
No comments:
Post a Comment