ہمارے شہرِ ادب میں چلی ہوا کیا ہے
یہ کیسا دور ہے یا رب ہمیں ہُوا کیا ہے
اسی نے آگ لگائی ہے ساری بستی میں
وہی یہ پوچھ رہا ہے کہ ماجرا کیا ہے؟
یہ تیرا ظرف کہ تُو پھر بھی بدگماں نہ ہوا
سوائے درد کے میں نے تجھے دیا کیا ہے
لپک کے چھین لے حق اپنا کم سوادوں سے
بڑھا کے ہاتھ اٹھا جام دیکھتا کیا ہے
بھلا دیا ہے جو تم نے تو کوئی بات نہیں
مگر میں جانتا آخر مِری خطا کیا ہے
عجیب شخص ہے کردار مانگتا ہے مِرا
سوائے اس کے مِرے پاس اب بچا کیا ہے
کرید کر میرے زخموں کو یوں سوال نہ کر
تجھے خبر ہے تو پھر مجھ سے پوچھتا کیا ہے
متاع غم کو بچا رکھ چھپا کے سینے میں
تُو اس خزانے کو اوروں میں بانٹتا کیا ہے
ہزار نعمتیں اس نے تجھے عطا کی ہیں
اب اور چاند تو اس در سے مانگتا کیا ہے
مہندر پرتاب چاند
No comments:
Post a Comment