Saturday, 30 January 2021

میں خواہشوں کے عذاب لے کر چلا گیا ہوں

 میں خواہشوں کے عذاب لے کر چلا گیا ہوں

وہ دل، وہ خانہ خراب لے کر چلا گیا ہوں

میں چھوڑ کر اپنی راہ تکتی اداس آنکھیں

جو بچ گئے تھے وہ خواب لے کر چلا گیا ہوں

جس پہ میں نے محبتوں کی وحی لکھی تھی 

وہ ایک ممنوع کتاب لے کر چلا گیا ہوں

بس اک اجل کو سنا گیا ہوں جو داستاں تھی

میں زندگی سے حساب لے کر چلا گیا ہوں

میں قافلوں کو دکھا گیا ہوں نشانِ منزل 

میں راستوں کے سراب لے کر چل گیا ہوں

انہیں کہو کہ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملوں گا

میں گردِ راہ کی نقاب لے کر چلا گیا ہوں


خلیل الرحمان قمر

No comments:

Post a Comment