Sunday 24 January 2021

ہمسفر سائے کو سمجھتا ہوں

 ہمسفر سائے کو سمجھتا ہوں

اس لیے دھوپ میں نکلتا ہوں

تیری گلیوں میں شور ہے میرا

کیا یہاں سے بھی میں گزرتا ہوں

ایک مزدور کا اثاثہ ہوں

میں جو ڈگری اٹھائے پھرتا ہوں

جب مِری بیٹی گھر نہیں ہوتی

میں پرندوں سے بات کرتا ہوں

اپنے ملبے کی کھوج ہے مجھ کو

دیکھیے کب کہاں سے ملتا ہوں

کون آنکھیں ادھار دیتا ہے

میں تو بیکار دعوی کرتا ہوں

یہ گلی ختم ہی نہیں ہوتی

روز ہی ایک موڑ مڑتا ہوں

سب مجھے ہی خریدنا چاہیں

کیا میں اتنا زیادہ سستا ہوں


ارشد مرزا

No comments:

Post a Comment