ہمسفر سائے کو سمجھتا ہوں
اس لیے دھوپ میں نکلتا ہوں
تیری گلیوں میں شور ہے میرا
کیا یہاں سے بھی میں گزرتا ہوں
ایک مزدور کا اثاثہ ہوں
میں جو ڈگری اٹھائے پھرتا ہوں
جب مِری بیٹی گھر نہیں ہوتی
میں پرندوں سے بات کرتا ہوں
اپنے ملبے کی کھوج ہے مجھ کو
دیکھیے کب کہاں سے ملتا ہوں
کون آنکھیں ادھار دیتا ہے
میں تو بیکار دعوی کرتا ہوں
یہ گلی ختم ہی نہیں ہوتی
روز ہی ایک موڑ مڑتا ہوں
سب مجھے ہی خریدنا چاہیں
کیا میں اتنا زیادہ سستا ہوں
ارشد مرزا
No comments:
Post a Comment