دیدۂ شوق لیے جذبۂ بے تاب لیے
آج تو حسن بھی ہے عشق کے آداب لیے
چشم مخمور لیے کاکلِ شب تاب لیے
رشک ایماں بھی ہیں وہ کفر کے اسباب لیے
ان کے ابرو پہ ہیں بَل اور تبسم لب پر
میرے افسانۂ ہستی کا نیا باب لیے
اب تو یہ حال ہے دیکھے ہوئے مدت گزری
کوئی گزرا ہی نہیں خندۂ شاداب لیے
خواب کیا چیز ہے اب خواب کی تعبیر سنو
ورنہ ہر دیدۂ بے خواب ہے اک خواب لیے
راہ میں اب کوئی طوفاں کوئی سیلاب آئے
زندگی آج ہے خود فطرت سیلاب لیے
شمسی مینائی
No comments:
Post a Comment