Monday 25 January 2021

دیدۂ شوق لیے جذبۂ بے تاب لیے

 دیدۂ شوق لیے جذبۂ بے تاب لیے

آج تو حسن بھی ہے عشق کے آداب لیے

چشم مخمور لیے کاکلِ شب تاب لیے

رشک ایماں بھی ہیں وہ کفر کے اسباب لیے

ان کے ابرو پہ ہیں بَل اور تبسم لب پر

میرے افسانۂ ہستی کا نیا باب لیے

اب تو یہ حال ہے دیکھے ہوئے مدت گزری

کوئی گزرا ہی نہیں خندۂ شاداب لیے

خواب کیا چیز ہے اب خواب کی تعبیر سنو

ورنہ ہر دیدۂ بے خواب ہے اک خواب لیے

راہ میں اب کوئی طوفاں کوئی سیلاب آئے

زندگی آج ہے خود فطرت سیلاب لیے


شمسی مینائی

No comments:

Post a Comment