Monday, 25 January 2021

اس قدر دور نہ دریا کا کنارہ ہوتا

 اس قدر دور نہ دریا کا کنارہ ہوتا

ڈوبنے والے نے گر تجھ کو پکارا ہوتا

ہم کو اپنے ہی غموں سے کبھی فرصت نہ ملی

ورنہ وہ شخص تو ہر حال ہمارا ہوتا

چھین  لیتے تجھے قسمت سے تقاضا کر کے 

عشق کا کھیل گر اب کے دوبارہ ہوتا

چاند بادل میں نہ خود کو یوں چھپاتا پھرتا

چھت پہ زلفوں کو نہ گر اس نے سنوارا ہوتا

گرنے والے تو سنبھل جاتے اسی وقت مگر 

تم نے بانہوں کا دیا ان کو سہارا ہوتا

اس محبت نے گنوائی ہے حیاتی تیری

ورنہ یہ وقت مِرے دوست تمہارا ہوتا

جان وہ جاتا کہ ہے عشق میں حِدت کتنی 

اس نے کچھ وقت جو کربل میں گزارا ہوتا 

اب کے برباد نہ ہوتا یوں زمانے بھر میں

میرے ہاتھوں جو مقدر کا ستارا ہوتا

تیری کشتی کو بھنور خود ہی کنارا دیتے

تُو نے کچھ بوجھ اگر اِس سے اتارا ہوتا

ہم نے اس رات ستاروں کو بُجھایا آخر

وہ تجھے دیکھیں، ہمیں کب یہ گوارا ہوتا

جاں لُٹا دیتے وہ پل بھر میں بِنا حجت کے

تُو نے آنکھوں سے کِیا ان کو اشارا ہوتا


عجیب ساجد

No comments:

Post a Comment