اس قدر دور نہ دریا کا کنارہ ہوتا
ڈوبنے والے نے گر تجھ کو پکارا ہوتا
ہم کو اپنے ہی غموں سے کبھی فرصت نہ ملی
ورنہ وہ شخص تو ہر حال ہمارا ہوتا
چھین لیتے تجھے قسمت سے تقاضا کر کے
عشق کا کھیل گر اب کے دوبارہ ہوتا
چاند بادل میں نہ خود کو یوں چھپاتا پھرتا
چھت پہ زلفوں کو نہ گر اس نے سنوارا ہوتا
گرنے والے تو سنبھل جاتے اسی وقت مگر
تم نے بانہوں کا دیا ان کو سہارا ہوتا
اس محبت نے گنوائی ہے حیاتی تیری
ورنہ یہ وقت مِرے دوست تمہارا ہوتا
جان وہ جاتا کہ ہے عشق میں حِدت کتنی
اس نے کچھ وقت جو کربل میں گزارا ہوتا
اب کے برباد نہ ہوتا یوں زمانے بھر میں
میرے ہاتھوں جو مقدر کا ستارا ہوتا
تیری کشتی کو بھنور خود ہی کنارا دیتے
تُو نے کچھ بوجھ اگر اِس سے اتارا ہوتا
ہم نے اس رات ستاروں کو بُجھایا آخر
وہ تجھے دیکھیں، ہمیں کب یہ گوارا ہوتا
جاں لُٹا دیتے وہ پل بھر میں بِنا حجت کے
تُو نے آنکھوں سے کِیا ان کو اشارا ہوتا
عجیب ساجد
No comments:
Post a Comment