اپنی پلکوں کے شبستان میں رکھا ہے تمہیں
تم صحیفہ ہو سو جُزدان میں رکھا ہے تمہیں
ساتھ ہونے کے یقیں میں بھی مِرے ساتھ ہو تم
اور نہ ہونے کے بھی امکان میں رکھا ہے تمہیں
ایک کم ظرف کے سائے سے بھلی ہے یہ دھوپ
تم سمجھتے ہو کہ نقصان میں رکھا ہے تمہیں
جتنے آنسو💧 ہیں سبھی نذر کئے ہیں تم کو
ہم نے ہر شعر کے وجدان میں رکھا ہے تمہیں
دل تو دیوانہ ہے، اپنا ہی اسے ہوش نہیں
اس لیے دل میں نہیں جان میں رکھا ہے تمہیں
میرے زخموں کا سبب پوچھے گی دنیا تم سے
میں نے ہر زخم کی پہچان میں رکھا ہے تمہیں
طارق قمر
No comments:
Post a Comment