ملبہ ہٹا کے آنکھ کی کرچی اٹھائی تھی
دیوارِ خواب نیند نے تِرچھی اٹھائی تھی
ردِ دعا کا نصف اثاثہ تمہارے نام
تم نے بھی میرے ساتھ ہتھیلی اٹھائی تھی
ہاتھوں کو دل نے خون کی ترسیل روک دی
میں نے تمہاری یاد پہ انگلی اٹھائی تھی
مجھ کو مِرے ہی دوسرے بازو نے ڈَس لیا
شہرِ ہوس سے سونے کی دھیلی اٹھائی تھی
ہم جاگ تو رہے تھے مگر جانتے نہ تھے
کب آسماں نے آنکھ سے سُرخی اٹھائی تھی
شبیر حسن
No comments:
Post a Comment