بجھی امید کو پھر سے جگا کر دیکھنا ہو گا
ستاروں سے جہاں اپنا سجا کر دیکھنا ہو گا
اگر سر کو جھکانے سے نہیں ہوتا ہے کچھ حاصل
تو سجدے میں ہمیں دل کو جھکا کر دیکھنا ہو گا
مسلسل ہجر سہنے کی روش یہ مار ناں ڈالے
کہ دل سے تیری یادوں کو مٹا کر دیکھنا ہو گا
سنا ہے عشق میں لذت ہی لذت ہے رکھی ہر دم
سو اب کے خاک میں خود کو ملا کر دیکھنا ہو گا
ہمیں اب کام لینا ہے یہاں عقل و شعوری سے
حقیقت سے سبھی پردے اٹھا کر دیکھنا ہو گا
بسا کر نفرتیں دل میں ہمیں کیا ہے ملا عاصم
کہ اب دل میں محبت کو بسا کر دیکھنا ہو گا
عاصم خیالوی
No comments:
Post a Comment