شب کو نالہ جو مِرا تا بہ فلک جاتا ہے
صبح کو مہر کے پردے میں چمک جاتا ہے
اپنا پیمانۂ دل ہے مئے غم سے لبریز
بوند سے بادۂ عشرت کی چھلک جاتا ہے
کمرِ یار کی لکھتا ہوں نزاکت جس دم
خامہ سو مرتبہ کاغذ پہ لچک جاتا ہے
یاد آتی ہے کبھی صحبتِ احباب اگر
ایک شعلہ ہے کہ سینے میں بھڑک جاتا ہے
چاندنی چھپتی ہے تکیوں کے تلے آنکھوں میں خواب
سونے میں ان کا دوپٹہ جو سرک جاتا ہے
وصل کے ذکر پہ کہتے ہیں بگڑ کر دیکھو
ایسی باتوں سے کلیجہ مِرا پک جاتا ہے
دل لیا ہے تو خدا کے لیے کہہ دو صاحب
مسکراتے ہو تمہیں پر مِرا شک جاتا ہے
پیار کرنے کو جو بڑھتا ہوں تو کہتے ہیں ہٹو
نشہ میں آ کے کوئی ایسا بہک جاتا ہے
ساقیا! جام پِلا، سِیخ سے اترا ہے کباب
دیر اچھی نہیں اب لطفِ گزک جاتا ہے
لبِ خنداں سے نہ دیں کس لیے قاتل کو دعا
روز زخموں پہ نمک آ کے چھڑک جاتا ہے
شیفتہ شاہد رعنائے سخن کا ہوں حبیب
نئے انداز پہ دل میرا پھڑک جاتا ہے
حبیب موسوی
No comments:
Post a Comment