عکس کوئی شوق کی دیوار پر بڑھتا گیا
اور پھر اک راہ پر میرا گزر بڑھتا گیا
بعد تیرے منزلوں سے دشمنی کچھ یوں ہوئی
فاصلے مٹتے رہے لیکن سفر بڑھتا گیا
ذہن اور دل کے دروں تیرا جنوں چلتا رہا
ایک پر سے کم ہوا تو ایک پر بڑھتا گیا
اس کو خوش دیکھا تو خوش رہنے کی کوشش کی مگر
دور پایا خود کو تو دردِ جگر بڑھتا گیا
اچھے دن یاد آ گئے سورج اُبھرتا دیکھ کر
اور اندھیرا میرے گھر وقتِ سحر بڑھتا گیا
ہم بنا کر چھوڑتے تھے اک نیا محبوب روز
اس طرح تجھ کو بھلانے کا ہنر بڑھتا گیا
ایک کھڑکی پر کبوتر ڈار در ڈار آ گئے
ایک سیارے پہ سورج کا اثر بڑھتا گیا
سانپ بن کر علم کی ہم نے نگہبانی نہ کی
ہم سخی ہوتے گئے، یہ جس قدر بڑھتا گیا
اک ولی نے میرے سائے کو دعا دی اور پھر
شہر کے سوکھے درختوں پر ثمر بڑھتا گیا
ساز بجنے پر اٹھی اللہ اکبر کی صدا
آیتوں کا وِرد بھی اک رقص پر بڑھتا گیا
جن کو فطرت کے فقط کچھ رنگ دکھتے تھے عبید
ان کا تجھ کو دیکھ کر نورِ نظر بڑھتا گیا
عبید ثاقب
No comments:
Post a Comment