Wednesday, 27 January 2021

عکس کوئی شوق کی دیوار پر بڑھتا گیا

 عکس کوئی شوق کی دیوار پر بڑھتا گیا

اور پھر اک راہ پر میرا گزر بڑھتا گیا

بعد تیرے منزلوں سے دشمنی کچھ یوں ہوئی

فاصلے مٹتے رہے لیکن سفر بڑھتا گیا

ذہن اور دل کے دروں تیرا جنوں چلتا رہا

ایک پر سے کم ہوا تو ایک پر بڑھتا گیا

اس کو خوش دیکھا تو خوش رہنے کی کوشش کی مگر

دور پایا خود کو تو دردِ جگر بڑھتا گیا

اچھے دن یاد آ گئے سورج اُبھرتا دیکھ کر

اور اندھیرا میرے گھر وقتِ سحر بڑھتا گیا

ہم بنا کر چھوڑتے تھے اک نیا محبوب روز

اس طرح تجھ کو بھلانے کا ہنر بڑھتا گیا

ایک کھڑکی پر کبوتر ڈار در ڈار آ گئے

ایک سیارے پہ سورج کا اثر بڑھتا گیا

سانپ بن کر علم کی ہم نے نگہبانی نہ کی

ہم سخی ہوتے گئے، یہ جس قدر بڑھتا گیا

اک ولی نے میرے سائے کو دعا دی اور پھر

شہر کے سوکھے درختوں پر ثمر بڑھتا گیا

ساز بجنے پر اٹھی اللہ اکبر کی صدا

آیتوں کا وِرد بھی اک رقص پر بڑھتا گیا

جن کو فطرت کے فقط کچھ رنگ دکھتے تھے عبید

ان کا تجھ کو دیکھ کر نورِ نظر بڑھتا گیا


عبید ثاقب

No comments:

Post a Comment