Sunday, 31 January 2021

کیا بتائیں غم فرقت میں کہاں سے گزرے

 کیا بتائیں غمِ فرقت میں کہاں سے گزرے

موسمِ گل سے جو نکلے تو خزاں سے گزرے

دل سے آنکھوں سے مکینوں سے مکاں سے گزرے

درد پھر درد ہے جب چاہے جہاں سے گزرے

حسن کی شوخ سری کا یہی حاصل نکلا

آتش عشق بڑھی آہ و فغاں سے گزرے

رقص کرتے ہی رہے خواب دھنوں پر لیکن

سانس کے تار سبھی سوزِ نہاں سے گزرے

با وضو ہو کے مِرا ذکر جو کرتے تھے کبھی

آج پلٹے ہیں زباں سے وہ بیاں سے گزرے

وہ محبت ہو کے ایثار و وفا ہو ذاکر

عشق کے تیر شب و روز کماں سے گزرے


ذاکر خان

No comments:

Post a Comment