Friday 22 January 2021

جب ترے خواب سے بیدار ہوا کرتے تھے

 جب تِرے خواب سے بیدار ہوا کرتے تھے

ہم کسی رنج سے دو چار ہوا کرتے تھے

آئینے چشم تحیر سے ہمیں دیکھتے تھے

ہم کہ جب تیرے گرفتار ہوا کرتے تھے

آج معلوم ہوا تیری ضرورت ہی نہ تھی

ہم یونہی تیرے طلب گار ہوا کرتے تھے

اب تو ہم روز انہیں پاؤں تلے روندتے ہیں

یہ ہی رستے تھے جو دشوار ہوا کرتے تھے

دولت عشق سے ہم کام چلاتے تھے میاں

بس یہی درہم و دینار ہوا کرتے تھے

بارہا یوں بھی ہوا ڈوبے ہوئے خواب مِرے

اس کی آنکھوں سے نمودار ہوا کرتے تھے

آپ ہی آپ کہانی سے نکلتے جاتے

جو مِرے جیسے اداکار ہوا کرتے تھے

لو کہ ہم بوجھ اٹھاتے ہیں زمیں سے اپنا

ہم کبھی اس پہ بہت بار ہوا کرتے تھے

آج جو لوگ خریدار ہیں تیرے

کل یہی میرے خریدار ہوا کرتے تھے


اظہر عباس

No comments:

Post a Comment