ہم تو بس اک عقدہ تھے حل ہونے تک
زنجیروں میں بند تھے پاگل ہونے تک
عشق اگر ہے دین تو پھر ہو جائیں گے
ہم بھی مُرتد اس کے مکمل ہونے تک
میں پانی تھا سورج گھور رہا تھا مجھے
کیا کرتا بے بس تھا بادل ہونے تک
اب تو خیر سراب سی خوب چمکتی ہے
آنکھ تھی دریا شہر کے جنگل ہونے تک
اب وہ میری آنکھ پہ ایماں لایا ہے
دشت ہی تھا یہ دل بھی جل تھل ہونے تک
جھیل کبھی تالاب کبھی دریا تھا کبھی
میرے کیا کیا روپ تھے دلدل ہونے تک
رفیق راز
No comments:
Post a Comment