Monday 25 January 2021

بالکل نئی کہانی لکھ کر بیٹھا ہوں

 بالکل نئی کہانی لکھ کر بیٹھا ہوں

میں پانی پر پانی لکھ کر بیٹھا ہوں

کاغذ قلم دوات سنبھال کے بستے میں

پوری بات زبانی لکھ کر بیٹھا ہوں

مجنوں کی اس مجنونانہ حرکت کو

صحرا میں قربانی لکھ کر بیٹھا ہوں

اور تو اور میں ہانپتے کانپتے ہاتھوں سے

تیرے نام جوانی لکھ کر بیٹھا ہوں

حالانکہ میں خود بھی کون سا یوسف تھا

تجھ کو یوسفِ ثانی لکھ کر بیٹھا ہوں

ذہنی طور پہ ہوں دو چار اذیت سے

وہ جس کو جسمانی لکھ کر بیٹھا ہوں

پہلے میں نے بھاپ اُڑائی پانی میں

پھر اس آگ کو پانی لکھ کر بیٹھا ہوں


مسعود احمد اوکاڑوی

No comments:

Post a Comment