بالکل نئی کہانی لکھ کر بیٹھا ہوں
میں پانی پر پانی لکھ کر بیٹھا ہوں
کاغذ قلم دوات سنبھال کے بستے میں
پوری بات زبانی لکھ کر بیٹھا ہوں
مجنوں کی اس مجنونانہ حرکت کو
صحرا میں قربانی لکھ کر بیٹھا ہوں
اور تو اور میں ہانپتے کانپتے ہاتھوں سے
تیرے نام جوانی لکھ کر بیٹھا ہوں
حالانکہ میں خود بھی کون سا یوسف تھا
تجھ کو یوسفِ ثانی لکھ کر بیٹھا ہوں
ذہنی طور پہ ہوں دو چار اذیت سے
وہ جس کو جسمانی لکھ کر بیٹھا ہوں
پہلے میں نے بھاپ اُڑائی پانی میں
پھر اس آگ کو پانی لکھ کر بیٹھا ہوں
مسعود احمد اوکاڑوی
No comments:
Post a Comment