رہتے ہیں میرے پاس ہمیشہ یہ تین دوست
یادیں تِری، یہ آسماں اور یہ زمین دوست
کارِ معاش نے مجھے مصروف کر دیا
اتنا کہ کھو رہا ہوں میں تجھ سی حسین دوست
یا ذکر چھوڑ دے تُو محبت کا شعر میں
یا پھر چڑھانا چھوڑ دے تو آستین دوست
اس کے ہر ایک وار پہ دیتا رہا میں داد
مرتے ہوئے بھی کہتا رہا بہترین دوست
در پیش ہیں مجھے کئی اوہامِ افتراق
اک بوسۂ جبین دے بہرِ یقین دوست
چل یار میرے دل میں رہائش کر اختیار
لائق نہیں ہے تیرے مِری آستین دوست
قمر آسی
No comments:
Post a Comment