سفر کو نکلے تھے ہم جس کی رہنمائی پر
وہ اک ستارہ کسی اور آسماں کا تھا
جسے ہم اپنی رگِ جاں بنائے بیٹھے تھے
وہ دوست تھا، مگر اک اور مہربان کا تھا
عجیب دن تھے کہ با وصفِ دُورئ ساغر
گمان نشے کا تھا، اور نشہ گمان کا تھا
بس ایک صورتِ اخلاق تھی نگاہِ کرم
بس ایک طرزِ تکلم مزا بیان کا تھا
اس اہتمام سے وابستگی نہ تھی منظور
یہ اہتمام فقط دل کے امتحان کا تھا
ہوا نے چاک کیا، بارشوں نے دھو ڈالا
بس ایک حرف محبت کی داستان کا تھا
مصطفیٰ زیدی
مجموعۂ کلام؛ گریباں
No comments:
Post a Comment