Sunday, 24 January 2021

سفر کو نکلے تھے ہم جس کی رہنمائی پر

 سفر کو نکلے تھے ہم جس کی رہنمائی پر

وہ اک ستارہ کسی اور آسماں کا تھا

جسے ہم اپنی رگِ جاں بنائے بیٹھے تھے

وہ دوست تھا، مگر اک اور مہربان کا تھا

عجیب دن تھے کہ با وصفِ دُورئ ساغر

گمان نشے کا تھا، اور نشہ گمان کا تھا

بس ایک صورتِ اخلاق تھی نگاہِ کرم

بس ایک طرزِ تکلم مزا بیان کا تھا

اس اہتمام سے وابستگی نہ تھی منظور

یہ اہتمام فقط دل کے امتحان کا تھا

ہوا نے چاک کیا، بارشوں نے دھو ڈالا

بس ایک حرف محبت کی داستان کا تھا


مصطفیٰ زیدی


مجموعۂ کلام؛ گریباں 

No comments:

Post a Comment