Sunday, 24 January 2021

بارہا شب کو یوں لگا ہے مجھے

 بارہا شب کو یوں لگا ہے مجھے

کوئی سایہ پکارتا ہے مجھے

جیسے یہ شہر کل نہیں ہو گا

جانے کیا وہم ہو گیا ہے مجھے

میں ستاروں کا ایک نغمہ ہوں

بیکراں رات نے سنا ہے مجھے

میں ادھورا سا ایک جُملہ ہوں

اہتماماً کہا گیا ہے مجھے

دُکھ ہے، احساسِ جرم ہے، کیا ہے؟

کوئی اندر سے توڑتا ہے مجھے

جیسے میں دیکھتا ہوں آئینہ

یوں ہی آئینہ دیکھتا ہے مجھے

جب میں باتوں سے ٹوٹ جاتا ہوں

کوئی ہونٹوں سے جوڑتا ہے مجھے

سازشیں یہ کسی چراغ کی ہیں

میرا سایہ ڈرا رہا ہے مجھے

وہ مجھے پوچھنے کو آیا تھا

حال اپنا سنا رہا ہے مجھے

جانے وہ کون تھا دِیے کی طرح

راستے میں جلا گیا ہے مجھے

نیند کے حاشیوں میں پچھلے پہر

اک ستارہ پکارتا ہے مجھے

اس نے کیسے سجا سجا کے سلیم

اک غزل کی طرح لکھا ہے مجھے ​


سلیم احمد

No comments:

Post a Comment