بارہا شب کو یوں لگا ہے مجھے
کوئی سایہ پکارتا ہے مجھے
جیسے یہ شہر کل نہیں ہو گا
جانے کیا وہم ہو گیا ہے مجھے
میں ستاروں کا ایک نغمہ ہوں
بیکراں رات نے سنا ہے مجھے
میں ادھورا سا ایک جُملہ ہوں
اہتماماً کہا گیا ہے مجھے
دُکھ ہے، احساسِ جرم ہے، کیا ہے؟
کوئی اندر سے توڑتا ہے مجھے
جیسے میں دیکھتا ہوں آئینہ
یوں ہی آئینہ دیکھتا ہے مجھے
جب میں باتوں سے ٹوٹ جاتا ہوں
کوئی ہونٹوں سے جوڑتا ہے مجھے
سازشیں یہ کسی چراغ کی ہیں
میرا سایہ ڈرا رہا ہے مجھے
وہ مجھے پوچھنے کو آیا تھا
حال اپنا سنا رہا ہے مجھے
جانے وہ کون تھا دِیے کی طرح
راستے میں جلا گیا ہے مجھے
نیند کے حاشیوں میں پچھلے پہر
اک ستارہ پکارتا ہے مجھے
اس نے کیسے سجا سجا کے سلیم
اک غزل کی طرح لکھا ہے مجھے
سلیم احمد
No comments:
Post a Comment