کبھی خیال ستم ہائے روزگار کے ہیں
کبھی سبو پہ اثر زلفِ تابدار کے ہیں
کسے نصیب تماشائے جاں بکف ہونا
یہ حوصلے تو فقط تیرے جاں نثار کے ہیں
نظر ہٹا کے گزر جاؤ نکتہ چینوں سے
کوئے وصال میں یہ سنگ رہگزار کے ہیں
بساط کیا جو سخن میرے معتبر ٹھہرے
بلند بخت تو وہ، جو تِرے دیار کے ہیں
خضر کریں گے کسی روز گردشوں کا ملال
ابھی کشید کرو مے کہ دن بہار کے ہیں
خضر حجازی
No comments:
Post a Comment