حال کوئی نہیں تمہارا بھی
تم نے جیتا بھی اور ہارا بھی
خوشیاں ساری لٹا دیں اس پر ہی
اور بڑھتا گیا خسارا بھی
سردیوں کی ٹھٹھرتی شاموں میں
بار ہا میں نے ہے پکارا بھی
بعد تیرے جو ہم نے سوچا ہے
اپنا ہوتا نہیں گزارا بھی
پھول خوشبو ہی بھول جائیں گے
تُو نے زلفوں کو گر سنوارا بھی
نام مجھ ہی سے پوچھنے والے
تو بھی تھا تو کبھی ہمارا بھی
توبہ ہے مے کشی سے توبہ ہے
مے کدے سے ہوا کنارا بھی
اس نے چھت پر کبھی نہیں آنا
اب نہ کرنا کوئی اشارا بھی
ڈوب جائیں گے وہ کناروں پر
جب رہا نہ تِرا سہارا بھی
اب کہ توبہ یہ پھر نہ ٹوٹے گی
تُو نے جذبات کو ابھارا بھی
گردشِ وقت لے ہی جائے گی
ڈوب جائے گا یہ ستارا بھی
عجیب ساجد
No comments:
Post a Comment