Sunday, 31 January 2021

پیاس جو بجھ نہ سکی اس کی نشانی ہو گی

 پیاس جو بجھ نہ سکی اس کی نشانی ہو گی 

ریت پر لکھی ہوئی میری کہانی ہو گی 

وقت الفاظ کا مفہوم بدل دیتا ہے 

دیکھتے دیکھتے ہر بات پرانی ہو گی 

کر گئی جو مِری پلکوں کے ستارے روشن 

وہ بکھرتے ہوئے سورج کی نشانی ہو گی 

پھر اندھیرے میں نہ کھو جائے کہیں اس کی صدا 

دل کے آنگن میں نئی شمع جلانی ہو گی 

اپنے خوابوں کی طرح شاخ سے ٹوٹے ہوئے پھول 

چُن رہی ہوں کوئی تصویر سجانی ہو گی

بے زباں کر گیا مجھ کو تو سوالوں کا ہجوم 

زندگی! آج تجھے بات بنانی ہو گی 

کر رہی ہے جو مِرے عکس کو دُھندلا ثروت

میں نے دنیا کی کوئی بات نہ مانی ہو گی


نورجہاں ثروت

No comments:

Post a Comment