پیاس جو بجھ نہ سکی اس کی نشانی ہو گی
ریت پر لکھی ہوئی میری کہانی ہو گی
وقت الفاظ کا مفہوم بدل دیتا ہے
دیکھتے دیکھتے ہر بات پرانی ہو گی
کر گئی جو مِری پلکوں کے ستارے روشن
وہ بکھرتے ہوئے سورج کی نشانی ہو گی
پھر اندھیرے میں نہ کھو جائے کہیں اس کی صدا
دل کے آنگن میں نئی شمع جلانی ہو گی
اپنے خوابوں کی طرح شاخ سے ٹوٹے ہوئے پھول
چُن رہی ہوں کوئی تصویر سجانی ہو گی
بے زباں کر گیا مجھ کو تو سوالوں کا ہجوم
زندگی! آج تجھے بات بنانی ہو گی
کر رہی ہے جو مِرے عکس کو دُھندلا ثروت
میں نے دنیا کی کوئی بات نہ مانی ہو گی
نورجہاں ثروت
No comments:
Post a Comment