Saturday, 30 January 2021

ویسے تو بے شمار ہیں قامت کشیدہ لوگ

 ویسے تو بے شمار ہیں قامت کشیدہ لوگ

گنتی ہوئی تو رہ گئے بس چیدہ چیدہ لوگ

دستار کے حصول کا کوئی تو ہو جواز

کس زعم میں ہیں مبتلا یہ سر بریدہ لوگ

اے کاش اپنی موت ہی مرتے تو تھا مزا

جاں سے گزر گئے ہیں جو مردم گزیدہ لوگ

کوئی تو پشتی بان ہے ان کا یہیں کہیں

کب بیٹھتے ہیں چین سے دامن دریدہ لوگ

کھینچے گی طول کب تلک مہلت ملی ہوئی

فرعون بن گئے ہیں تِرے آفریدہ لوگ

پرواز جن کی دید کو آنکھیں ترس گئیں

لائیں کہاں سے ڈھونڈ کے ایسے چنیدہ لوگ


یعقوب پرواز

No comments:

Post a Comment