اس سے پہلے کہ سر اتر جائیں
ہم اداسی میں رنگ بھر جائیں
زخم مُرجھا رہے ہیں رشتوں کے
اب اٹھیں دوستوں کے گھر جائیں
غم کا سورج تو ڈوبتا ہی نہیں
دھوپ ہی دھوپ ہے کدھر جائیں
اپنا احساس بن گیا دشمن
جب بھی چاہا کہ زخم بھر جائیں
وار چاروں طرف سے ہیں ہم پر
شاید اس معرکے میں سر جائیں
سرفراز دانش
No comments:
Post a Comment