Saturday 30 January 2021

اس سے پہلے کہ سر اتر جائیں

 اس سے پہلے کہ سر اتر جائیں

ہم اداسی میں رنگ بھر جائیں

زخم مُرجھا رہے ہیں رشتوں کے

اب اٹھیں دوستوں کے گھر جائیں

غم کا سورج تو ڈوبتا ہی نہیں

دھوپ ہی دھوپ ہے کدھر جائیں

اپنا احساس بن گیا دشمن

جب بھی چاہا کہ زخم بھر جائیں

وار چاروں طرف سے ہیں ہم پر

شاید اس معرکے میں سر جائیں


سرفراز دانش

No comments:

Post a Comment