Tuesday, 26 January 2021

دلوں میں خار لبوں پر گلہ ملے گا مجھے

دلوں میں خار لبوں پر گِلہ مِلے گا مجھے

خفا رہے گا زمانہ تو کیا ملے گا مجھے

یہ کیا خبر تھی ملاقات ان سے ہو گی اگر

نظر سے تا بہ نظر فاصلہ ملے گا مجھے

طلسمِ تیرگئی شب کہیں تو ٹُوٹے گا

کوئی چراغ کہیں تو جلا ملے گا مجھے

بہارِ باغِ تمنا کوئی تو دیکھے گا

کبھی تو دل میں کوئی جھانکتا ملے گا مجھے

زمانہ ہو گا تِرے ساتھ رہگزر میں جہاں

مِٹا مِٹا سا تِرا نقشِ پا ملے گا مجھے

ڈریں گے لوگ وفا کے خیال سے نظمی

مِری وفاؤں کا جس دن صِلہ ملے گا مجھے


نظمی سکندرآبادی

No comments:

Post a Comment