Friday, 29 January 2021

اب تک تم کو دیکھ رہا تھا رنگوں کے پیرائے میں

 اب تک تم کو دیکھ رہا تھا رنگوں کے پیرائے میں

تم تو سچ مچ ایک مجسم نظم ہو میری رائے میں

اپنی جانب کھینچ رہے ہیں مجھ ایسے درویش کو بھی

ایسی پراسرار کشش ہے، عورت اور سرمائے میں

چھونے سے اک بھید کھُلا ہے ایک کھُلا ہے چکھنے سے

دو قدریں تو اک جیسی ہیں، تجھ میں اور اس چائے میں

میں نے یوں بھی لطف اٹھایا سورج🌞 کی ہمراہی کا

آخر کتنا چل سکتا تھا دیواروں کے سائے میں

جب سگریٹ سے ہونٹ جلے تھے تب یہ مجھ کو یاد آیا

میں نے آگ کو چوم لیا تھا مٹی کے بہکائے میں

نیند پرائے بستر پر بھی آ جاتی ہے، لیکن دوست

گھر جیسا ماحول کہاں ملتا ہے کسی سرائے میں

خواہش کا یہ ریشم عارض دانتوں سے کب کٹتا ہے

کوشش کرتے رہنے سے ہی آئے گا سلجھائے میں


آفتاب عارض

No comments:

Post a Comment