اب تک تم کو دیکھ رہا تھا رنگوں کے پیرائے میں
تم تو سچ مچ ایک مجسم نظم ہو میری رائے میں
اپنی جانب کھینچ رہے ہیں مجھ ایسے درویش کو بھی
ایسی پراسرار کشش ہے، عورت اور سرمائے میں
چھونے سے اک بھید کھُلا ہے ایک کھُلا ہے چکھنے سے
دو قدریں تو اک جیسی ہیں، تجھ میں اور اس چائے میں
میں نے یوں بھی لطف اٹھایا سورج🌞 کی ہمراہی کا
آخر کتنا چل سکتا تھا دیواروں کے سائے میں
جب سگریٹ سے ہونٹ جلے تھے تب یہ مجھ کو یاد آیا
میں نے آگ کو چوم لیا تھا مٹی کے بہکائے میں
نیند پرائے بستر پر بھی آ جاتی ہے، لیکن دوست
گھر جیسا ماحول کہاں ملتا ہے کسی سرائے میں
خواہش کا یہ ریشم عارض دانتوں سے کب کٹتا ہے
کوشش کرتے رہنے سے ہی آئے گا سلجھائے میں
آفتاب عارض
No comments:
Post a Comment