جو نظر آر پار ہو جائے
وہی دل کا قرار ہو جائے
اپنی زلفوں کا ڈال دو سایہ
تِیرگی خوش گوار ہو جائے
تیری نظروں کو دیکھ پائے اگر
شیخ بھی مۓ گسار ہو جائے
موت کس طرح آئے بالیں پر
تو اگر ایک بار ہو جائے
آئینہ اپنے سامنے سے ہٹا
یہ نہ ہو خود سے پیار ہو جائے
تجھ کو دیکھے جو اک نظر فوراً
چاند بھی شرم سار ہو جائے
فنا بلند شہری
No comments:
Post a Comment