یہ سفر ہے حسرتوں کا اسے نا تمام رکھنا
کبھی یارِ دل شکن سے کبھی دل سے کام رکھنا
یونہی دور دور رہنا، وہ ملے تو کچھ نہ کہنا
پسِ حرفِ بے تکلم اسے ہمکلام رکھنا
کسی شامِ دِلدہی سے کسی صبح جانکنی سے
جو چراغ بجھ رہا ہو اسے میرے نام رکھنا
کسی یاد کی حِنا کو گلِ دستِ شب بنایا
کسی آنکھ کے دِیے کو سرِ طاقِ شام رکھنا
یہ ہوائے بے خیالی تو ہے کام آنے والی
نہ کوئی گِلہ گزاری، نہ دعا سلام رکھنا
جو زیادہ بے دلی ہو فزوں شکستگی ہو
بہت انتظار کرنا، بہت اہتمام رکھنا
یہ نصیر طور کیا ہے، تِرے دل میں اور کیا ہے
نہ حسابِ راہ کوئی، نہ خیالِ بام رکھنا
نصیر ترابی
No comments:
Post a Comment