Sunday, 24 January 2021

یہ سفر ہے حسرتوں کا اسے ناتمام رکھنا

 یہ سفر ہے حسرتوں کا اسے نا تمام رکھنا

کبھی یارِ دل شکن سے کبھی دل سے کام رکھنا

یونہی دور دور رہنا، وہ ملے تو کچھ نہ کہنا

پسِ حرفِ بے تکلم اسے ہمکلام رکھنا

کسی شامِ دِلدہی سے کسی صبح جانکنی سے

جو چراغ بجھ رہا ہو اسے میرے نام رکھنا

کسی یاد کی حِنا کو گلِ دستِ شب بنایا

کسی آنکھ کے دِیے کو سرِ طاقِ شام رکھنا

یہ ہوائے بے خیالی تو ہے کام آنے والی

نہ کوئی گِلہ گزاری، نہ دعا سلام رکھنا

جو زیادہ بے دلی ہو فزوں شکستگی ہو

بہت انتظار کرنا، بہت اہتمام رکھنا

یہ نصیر طور کیا ہے، تِرے دل میں اور کیا ہے

نہ حسابِ راہ کوئی، نہ خیالِ بام رکھنا


نصیر ترابی

No comments:

Post a Comment