Wednesday, 27 January 2021

میں چاہتا ہوں تراشوں ضعیف ہونے تک

 میں چاہتا ہوں تراشوں ضعیف ہونے تک

جوان قافیے، بوڑھی ردیف ہونے تک

ہم اس کی شرط پہ قائم رہے مگر وہ شخص

بدل چکا تھا ہمارے شریف ہونے تک

جلائے جاتے ہیں ایندھن کے طور پر اک دن

جو سایہ دیتے ہیں سب کو نحیف ہونے تک

جواں بدن کے مصائب عجب مصائب ہیں

لہو رلاتے ہیں دل کو ضعیف ہونے تک

دِیا بجھاتے ہی کھل جائیں گے خیال کے در

یہ بند رہتے ہیں منظر لطیف ہونے تک

بنا ہی لیں گے مچھیرے مکان شہروں میں

چمکتے دریا کا پانی کثیف ہونے تک


علی شیران

No comments:

Post a Comment