جب صبر امتحان سے آگے نکل گیا
ہر تیر خود کمان سے آگے نکل گیا
کچھ اس طرح سے اس نے دلاسے دیئے مجھے
میرا یقیں گمان سے آگے نکل گیا
راہوں کی رہنمائی کی یوں بھی سزا ملی
ہر راستہ مکان سے آگے نکل گیا
اب عشق سے جنوں میں قدم رکھ چکی ہوں میں
یعنی تو اب دھیان سے آگے نکل گیا
زخمی تھے جس کے پیر بھی پر بھی اور آنکھ بھی
اک وہ چِڑا اڑان سے آگے نکل گیا
آہیں زمین پر ہی کھڑی کھیلتی رہیں
اور ظلم آسمان سے آگے نکل گیا
باغوں میں ایک زخمی کلی چیختی رہی
بھنورا بڑی ہی شان سے آگے نکل گیا
زویا خلوص دل سے اسے الوداع کہا
جب عشق سوابھمان سے آگے نکل گیا
زویا شیخ
No comments:
Post a Comment