Sunday, 24 January 2021

جب صبر امتحان سے آگے نکل گیا

 جب صبر امتحان سے آگے نکل گیا

ہر تیر خود کمان سے آگے نکل گیا

کچھ اس طرح سے اس نے دلاسے دیئے مجھے

میرا یقیں گمان سے آگے نکل گیا

راہوں کی رہنمائی کی یوں بھی سزا ملی

ہر راستہ مکان سے آگے نکل گیا

اب عشق سے جنوں میں قدم رکھ چکی ہوں میں

یعنی تو اب دھیان سے آگے نکل گیا

زخمی تھے جس کے پیر بھی پر بھی اور آنکھ بھی

اک وہ چِڑا اڑان سے آگے نکل گیا

آہیں زمین پر ہی کھڑی کھیلتی رہیں

اور ظلم آسمان سے آگے نکل گیا

باغوں میں ایک زخمی کلی چیختی رہی

بھنورا بڑی ہی شان سے آگے نکل گیا

زویا خلوص دل سے اسے الوداع کہا

جب عشق سوابھمان سے آگے نکل گیا


زویا شیخ

No comments:

Post a Comment