میں تو سمجھا تھا کہ ہموار ہوا جاتا ہے
راستہ اور بھی دشوار ہوا جاتا ہے
تیرے ہونے سے فقط میں ہی نہیں روشن ہوں
یہ اندھیرا بھی چمکدار ہوا جاتا ہے
اشک بھی آنکھ میں ہے قید کسی جِن کی طرح
دل کو رگڑیں تو نمودار ہوا جاتا ہے
جب بھی دیکھوں کہیں روتے ہوئے لوگوں کا ہجوم
مجھ میں جوکر کوئی بیدار ہوا جاتا ہے
پہریداری ہے مِرے ذمے دراڑوں کی زمان
امتحاں اور مزیدار ہوا جاتا ہے
شعیب زمان
No comments:
Post a Comment