Monday, 25 January 2021

میں تو سمجھا تھا کہ ہموار ہوا جاتا ہے

 میں تو سمجھا تھا کہ ہموار ہوا جاتا ہے

راستہ اور بھی دشوار ہوا جاتا ہے

تیرے ہونے سے فقط میں ہی نہیں روشن ہوں

یہ اندھیرا بھی چمکدار ہوا جاتا ہے

اشک بھی آنکھ میں ہے قید کسی جِن کی طرح

دل کو رگڑیں تو نمودار ہوا جاتا ہے

جب بھی دیکھوں کہیں روتے ہوئے لوگوں کا ہجوم

مجھ میں جوکر کوئی بیدار ہوا جاتا ہے

پہریداری ہے مِرے ذمے دراڑوں کی زمان

امتحاں اور مزیدار ہوا جاتا ہے


شعیب زمان

No comments:

Post a Comment