چھلکے نہیں صدیوں سے یہ پلکوں کے کٹورے
مدت سے ہیں خالی مِری آنکھوں کے کٹورے
احساس کی اک چیخ سے ہو جاتے ہیں ٹکڑے
مٹی کے کھلونے ہیں کہ جذبوں کے کٹورے
آ جائے مجھے نیند کا جھونکا بھی کسی دن
بھر جائیں کسی رات یہ خوابوں کے کٹورے
یہ پھول ہیں یا پھول سی دلہن کا حسیں رخ
یہ اوس کی بوندیں ہیں کہ ہیروں کے کٹورے
اک عمر سے چمکے نہیں آکاش پہ تارے
سونے ہیں بہت سال سے راتوں کے کٹورے
معین افروز
No comments:
Post a Comment