شہرِ فصل گل سے چل کر پتھروں کے درمیاں
زندگی! آ جا کبھی ہم بے گھروں کے درمیاں
میں ہوں وہ تصویر جس میں حادثے بھرتے ہیں رنگ
خال و خط کھلتے ہیں میرے خنجروں کے درمیاں
پہلے ہم نے گھر بنا کر فاصلے پیدا کیے
پھر اٹھا دیں اور دیواریں گھروں کے درمیاں
عہدِ حاضر میں اخوت کا تصور ہے، مگر
تذکروں میں کاغذوں پر رہبروں کے درمیاں
ان شہیدانِ وفا کے نام میرے سب سخن
سر بلندی جن کو حاصل ہے سروں کے درمیاں
کیسا فن کیسی ذہانت یہ زمانہ اور ہے
سیکھ لو کچھ شعبدے بازی گروں کے درمیاں
اڑ گیا تو شاخ کا سارا بدن جلنے لگا
دھوپ رکھ لی تھی پرندے نے پروں کے درمیاں
یہ جو خانہ ہے سکونت کا، یہاں لکھ دو بشیر
پھول ہوں لیکن کھِلا ہوں پتھروں کے درمیاں
بشیر فاروقی
No comments:
Post a Comment