یہ خبر شورش نوائے وقت میں تھی پُرملال
ہو گیا لاہور میں شورش کا پرسوں انتقال
مختصر سی خبر کونے میں تھی اخبار کے
حاشیہ دے کر سیاہ لکھا تھا لفظ اِرتحال
بے اثر لفظوں میں تھی مرقوم رُودادِ وفات
جانکنی میں کوئی انسان نہ تھا پُرسانِ حال
الغرض، یہ اُس مقرر کا تھا سفرِ آخری
عمر بھر جس کو رہا حاصل خطیبانہ کمال
جس طرف نکلا جہاں پہنچا فضا پر چھا گیا
اس کے سر پر تھا فروزاں سایۂ اِیزد تعال
دس برس تک سختیاں جھیلیں بنامِ حُریت
قیدِ تنہائی میں کاٹے جس نے اپنے ماہ و سال
آئے دن طوفان بپا ہوتے رہے جس کے خلاف
جس کی جاں کے واسطے تھی اس کی حق گوئی وبال
نوعِ انساں کی طرح کمزوریاں اس میں بھی تھیں
آشکارا ہر کہ و مہ پہ تھے اس کے خد و خال
ماہ روؤں سے بھی اس کی گفتگو ہوتی رہی
اس کے اسلوبِ غزل کی جان تھے زہرہ جمال
شعر میں مرحوم یادوں کو رقم کرتا رہا
نظم میں لکھتا رہا افسانۂ ہجر و وصال
شاعرانہ روپ تھا اس کی زباں کا بانکپن
اس کے لہجہ سے ٹپکتا تھا ادیبانہ جلال
جوش و جذبہ کی اساسِ کُہنہ پہ چلتا رہا
اس نے اپنے آپ کو اس سے کیا تھا مالا مال
بات سچی دار کے تختہ پہ بھی کہتا تھا
ٹوکتا کوئی اسے کس شخص میں تھی یہ مجال
نوے فیصد دشمنِ جانی تھے اس کے گرد و پیش
جس کے ہم چشموں میں تھے اس کے بہی خواہ خال خال
بات جو لکھتا تھا لکھتا تھا بڑے انداز سے
ہیچ تھا اس کے لیے اندیشۂ مال و منال
اس کا سینہ ساتھیوں کی بے رخی سے داغ داغ
اس کا دل احباب کے لطف و کرم سے پائمال
لے اڑا اس کی نشاطِ عمر سیلِ انقلاب
کھا گئی اس کی جوانی گردشِ دوراں کی چال
عمر بھر یارانِ محفل کو صدا دیتا رہا
ایک بھی نکلا نہ اس کا ہمرکاب و ہم خیال
ذات پر اس کی تھا یارانِ ادب کو اختلاف
تھا ادیبِ نکتہ سنج و شاعرِ شیریں مقال
اک جماعت نے سرِ منبر اسے کافر کہا
دوسری نے لکھا اس کو عہدِ حاضر کا بلال
دی اذاں اس مردِ کافر نے حصارِ شِرک پر
یہ خطا ایسی تھی جس پر ہو گیا جینا محال
جرم ایسا تھا کہ اس پر گالیاں کھاتا رہا
یار لوگوں نے اٹھائے روز لا یعنی سوال
بعض کے ذہن و تصور میں وہ ایک گستاخ تھا
بعض کے نزدیک تھی اس کی شجاعتِ بے مثال
بات سیدھی ہے کہ اس میں کوئی بھی خوبی نہ تھی
اس کے دشمن تھے چمن میں پات پات اور ڈال ڈال
اس کے حق میں سب کے سب مومن دعا کرتے رہیں
بخش دے اس کے گناہوں کو خدائے لایزال
آغا شورش کاشمیری
No comments:
Post a Comment