Wednesday 27 January 2021

دل پر کسی پتھر کا نشاں یوں ہی رہے گا

 دل پر کسی پتھر کا نشاں یوں ہی رہے گا

تا عمر یہ شیشے کا مکاں یوں ہی رہے گا

ہم ٹھہرے رہیں گے کسی تعبیر کو تھامے

آنکھوں میں کوئی خواب رواں یوں ہی رہے گا

بُجھ جائے گا اک روز تِری یاد کا شعلہ 

لیکن مِرے سینے میں دھواں یوں ہی رہے گا

لَو دے تو رہا ہے مِرے خوابوں کے افق پر

لیکن یہ ستارہ بھی کہاں یوں ہی رہے گا


انعام ندیم

No comments:

Post a Comment