دل پر کسی پتھر کا نشاں یوں ہی رہے گا
تا عمر یہ شیشے کا مکاں یوں ہی رہے گا
ہم ٹھہرے رہیں گے کسی تعبیر کو تھامے
آنکھوں میں کوئی خواب رواں یوں ہی رہے گا
بُجھ جائے گا اک روز تِری یاد کا شعلہ
لیکن مِرے سینے میں دھواں یوں ہی رہے گا
لَو دے تو رہا ہے مِرے خوابوں کے افق پر
لیکن یہ ستارہ بھی کہاں یوں ہی رہے گا
انعام ندیم
No comments:
Post a Comment