Wednesday 27 January 2021

ہم زیست کی موجوں سے کنارا نہیں کرتے

 ہم زیست کی موجوں سے کنارا نہیں کرتے

ساحل سے سمندر کا نظارا نہیں کرتے

ہر شعبۂ ہستی ہے طلب گار توازن

ریشم سے کبھی ٹاٹ سنوارا نہیں کرتے

دریا کو سمجھنے کی تمنا ہے تو پھر کیوں

دریا کے کنارے سے کنارا نہیں کرتے

دستک سے علاقہ رہا کب شیش محل کو

خوابیدہ سماعت کو پکارا نہیں کرتے

دریا کو سمجھنے کی تمنا ہے تو پھر کیوں

دریا کے کنارے سے کنارا نہیں کرتے

ہم فرطِ مسرت میں کہیں جاں سے نہ جائیں

اس خوف سے وہ ذکر ہمارا نہیں کرتے

ہم ان کے تغافل کو سمجھتے تو ہیں لیکن

دنیا بھی سمجھ لے یہ گوارا نہیں کرتے

ظلمت سے ہی کچھ نور نچوڑو کہ ہم ارشد

مانگےکے اجالے پہ گزارا نہیں کرتے


ارشد کمال

No comments:

Post a Comment