ہم زیست کی موجوں سے کنارا نہیں کرتے
ساحل سے سمندر کا نظارا نہیں کرتے
ہر شعبۂ ہستی ہے طلب گار توازن
ریشم سے کبھی ٹاٹ سنوارا نہیں کرتے
دریا کو سمجھنے کی تمنا ہے تو پھر کیوں
دریا کے کنارے سے کنارا نہیں کرتے
دستک سے علاقہ رہا کب شیش محل کو
خوابیدہ سماعت کو پکارا نہیں کرتے
دریا کو سمجھنے کی تمنا ہے تو پھر کیوں
دریا کے کنارے سے کنارا نہیں کرتے
ہم فرطِ مسرت میں کہیں جاں سے نہ جائیں
اس خوف سے وہ ذکر ہمارا نہیں کرتے
ہم ان کے تغافل کو سمجھتے تو ہیں لیکن
دنیا بھی سمجھ لے یہ گوارا نہیں کرتے
ظلمت سے ہی کچھ نور نچوڑو کہ ہم ارشد
مانگےکے اجالے پہ گزارا نہیں کرتے
ارشد کمال
No comments:
Post a Comment