دھوپ رکھ دی تھی مقدر نے سرہانے میرے
عمر بھر آگ میں جلتے رہے شانے میرے
میں تِرے نام کا عامل ہوں، وہ اب جان گئے
حادثے اب نہیں ڈھونڈھیں گے ٹھکانے میرے
چاند سی ان کی وہ خوشرنگ قبا، وہ دستار
ان کی درویشی پہ قربان خزانے میرے
موجِ رنگ آئی کچھ اس طور کہ دل جھوم اٹھا
ہوش گم کر دئیے سرمستِ حنا نے میرے
پھر کوئی لمس مِرے جسم میں شعلے بھر دے
پھر سے یوں ہو کہ پلٹ آئیں زمانے میرے
جا، تجھے چھوڑ دیا اے غمِ دوراں! میں نے
ورنہ خالی نہیں جاتے ہیں نشانے میرے
ایسا لگتا تھا کہ لوٹ آئے ہیں گزرے ہوئے دن
مل گئے تھے مجھے کچھ دوست پرانے میرے
زندگی! دیکھ لی میں نے تِری دنیا، کہ جہاں
وقت نے چھین لیے خواب سہانے میرے
اب میں ساحل پہ نہیں، میں ہوں تہہِ آبِ رواں
شہر در شہر ہیں ہونٹوں پہ فسانے میرے
گر پڑا سیلِ حوادث مِرے قدموں پہ بشیر
ہاتھ تھامے جو بزرگوں کی دعا نے میرے
بشیر فاروقی
No comments:
Post a Comment