مسندِ عقیدت سے اُتار دئیے جاؤ گے
چُپ رہو! وگرنہ مار دئیے جاؤ گے
یہ بستی گُونگوں کی بستی ہے
شور جو مچاؤ گے گاڑ دئیے جاؤ گے
یہ کہنا ہے اس دور کے پیمبروں کا
گُزرو گے نہیں تو گُزار دئیے جاؤ گے
سُلا کر رکھو اپنے اندھے ضمیر کو
کہ اپنے ہی ضمیر پہ وار دئیے جاؤ گے
ان راستوں سے یار جیتنا محال ہے
اگر جیت گئے تو ہار دئیے جاؤ گے
اس قدر خلوص بھی اچھا نہیں فیصل
کسی ذرا سی بات پہ جھاڑ دئیے جاؤ گے
فیصل ملک
No comments:
Post a Comment