Monday, 25 January 2021

کرب کی بین بجاتے ہوئے حالات کے دکھ

 کرب کی بین بجاتے ہوئے حالات کے دُکھ

مجھ سے جھیلے نہیں جاتے یہ دن و رات کے دکھ

تیری خوشیوں سے جڑی ہیں مِری خوشیاں یارا

منسلک ذات سے تیری ہیں مِری ذات کے دکھ

ہم زمیں زاد تو ہیں، پر ہیں خداؤں والے

ہم فقیروں کو ہُوا کرتے سماوات کے دکھ

عام انساں تو فقط شعر پڑھے، واہ کہے

ایک شاعر ہی سمجھ سکتا ہے جذبات کے دکھ

زندگی سے ہو اگر کوئی گِلہ، ذکر کرو

عشق کے دکھ تو ہوا کرتے خرافات کے دکھ

لب سے ہر بُوند پہ اک آہ ادا ہوتی ہے

جا کے مزدور سے پوچھو کبھی برسات کے دکھ

ساتھ تفریح کا ساماں، نہ موبائل، نہ سکھی

تم کو معلوم بھی ہیں دوست! مضافات کے دکھ

زویا بچپن کے گناہوں کی سزا یوں پائی

کھا گئے مجھ کو جوانی میں مکافات کے دکھ


زویا شیخ

No comments:

Post a Comment